تعارف
شاکر
شجاع آبادی سرائیکی کے ممتاز شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی شاعری میں درد، محرومی، اور
انسانی نفسیات کی گہری ترجمانی ملتی ہے۔ ان کی نظم "میڈے بعد مرنڑ دے چن شاکر" ایک ایسی تخلیق ہے جو موت کے بعد کی بے حسی اور سماجی رویوں پر
طنز کرتی ہے۔ اس نظم میں شاکر نے سادہ الفاظ میں گہرے معانی بیان کیے ہیں، جو قاری
کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ترجمہ اور تشریح
"میڈے بعد مرنڑ دے چن شاکر، تیکوں لوک مبارکاں آ ڈیسن"
(میرے بعد مرنے والے چاند شاکر، تجھے لوگ مبارکباد دیں گے)
تشریح (دل میں اُتر جانے والی انداز میں):
یہ شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا پہلا شعر ہی نہیں، بلکہ ان کے دل کی صدا، روح کی فریاد اور ایک ٹوٹے ہوئے انسان کی آخری امید کی جھلک ہے۔
شاکر یہاں اپنے مخاطب کو "چن" یعنی "چاند" کہہ کر پکارتے ہیں — ایک ایسا استعارہ جو حسن، بلندی، بے نیازی اور دوری کی علامت ہے۔ شاعر اس محبوب یا شخصیت سے مخاطب ہے جو نہ صرف اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی بلکہ اس کی تنہائیوں کا واحد سہارا بھی۔
وہ کہتا ہے:
"جب میں مر جاؤں گا، جب میری آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی، تب لوگ تجھ سے آ کر کہیں گے: مبارک ہو! اب وہ پاگل، وہ دیوانہ، جو تمہیں ٹوٹ کر چاہتا تھا، جو تمہارے نام پر جیتا اور مرتا تھا — وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔"
یہ ایک طنزیہ مبارکباد ہے۔ وہ "مبارکباد" جو محبوب کی بے حسی پر، اس کی سنگ دلی پر ایک طمانچہ ہے۔ گویا شاعر کہنا چاہتا ہے کہ
"تمہیں مبارک ہو! وہ شخص جو ہر وقت تمہاری یاد میں بےقرار رہتا تھا، جو تمہیں زندگی کی سب سے بڑی خوشی سمجھتا تھا، تمہارے انکار کے باوجود تمہیں اپنی دعاؤں میں شامل رکھتا رہا۔"— وہ اب تمہیں کبھی تنگ نہیں کرے گا، کبھی تمہارے در پر نہیں آئے گا، اور کبھی تم سے محبت کی بھیک نہیں مانگے گا۔"
یہ شعر صرف محبوب سے شکوہ نہیں بلکہ معاشرے کی اس بےحسی کا نوحہ بھی ہے، جہاں سچی محبتوں کو رسوائی، تذلیل اور مذاق بنا دیا جاتا ہے۔ جہاں عاشقوں کی فریاد کو دیوانگی کہا جاتا ہے اور ان کی بے قراری کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔
شاعر کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ وہ ہر لمحہ اس درد کو جھیلتا رہا، مگر جس کے لیے تڑپتا رہا، وہی اس کے درد پر ہنستا رہا۔ اب وہ چاہتا ہے کہ دنیا دیکھے، سنے، اور پھر محبوب کو طعنہ دے:
"مبارک ہو! تمہارے عاشق کی چیخیں اب خاموش ہو چکی ہیں۔"
- دوسرا شعر:
شاعر ایک ایسی محرومی اور درد بھری کیفیت بیان کر رہا ہے جو شاید لفظوں میں پوری طرح بیان نہیں کی جا سکتی۔ وہ کہتا ہے کہ ساری زندگی اُس شخص کی محبت کے لیے تڑپتا رہا، جسے اس نے دل سے چاہا، جس کے لیے ہر دکھ اور ہر تکلیف کو خوشی سمجھ کر برداشت کیا۔ محبت کی اس راہ میں شاعر نے خود کو مٹا دیا، مگر محبوب نے کبھی اس محبت کی قدر نہ کی۔ زندگی کی سانسیں گنتے گنتے جب وہ تھک گیا اور دنیا چھوڑنے کا وقت آیا، تو دل میں اب بھی یہی سوال باقی ہے کہ کیا وہ شخص، جس کے لیے سب کچھ قربان کیا، میرے جنازے پر آئے گا یا نہیں؟
یہی تذبذب، یہی بےیقینی شاعر کو اندر سے توڑ رہی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جس نے زندگی بھر اس کے جذبات کو نہ سمجھا، وہ مرنے کے بعد بھی شاید کوئی پچھتاوا محسوس نہ کرے۔ لوگ تو روئیں گے، افسوس کریں گے، آنکھیں نم ہوں گی — لیکن جس کا ہونا سب سے زیادہ ضروری تھا، وہ شاید اس لمحے بھی صرف سوچتا رہ جائے گا کہ جائے یا نہ جائے۔ شاعر کو اب اس خام خیالی سے بھی نجات مل چکی ہے کہ وہ محبت کبھی سمجھ میں آئے گی۔ اسے اب یقین ہو چکا ہے کہ میرے جنازے کو وہی لوگ کاندھا دیں گے جنہیں وہ ہمیشہ غیر سمجھتا تھا — اور میرا محبوب؟ وہ بس کہیں دور بیٹھا، میری یادوں کے بوجھ تلے دبا، اپنی دنیا میں گم رہے گا۔
تیسرا شعر:
میکوں لوک ولا دفنا ویسن
اس شعر میں شاکر شجاع آبادی اپنی موت کے بعد کی بے بسی اور محبوب کی بے حسی کا کربناک منظر بیان کرتے ہیں۔ شاعر کی وصیت تھی کہ جب تک اس کا محبوب جنازے میں شرکت نہ کرے، اس وقت تک اس کی نمازِ جنازہ ادا نہ کی جائے اور نہ ہی اسے دفنایا جائے۔ اس امید میں کہ شاید محبوب کو اس کی موت کا دکھ ہو، شاید وہ آ جائے، شاید مرنے کے بعد ہی سہی، اس کی محبت کا کچھ صلہ مل جائے۔
لیکن افسوس! شاعر کے خواب، حسرت اور انتظار سب خاک ہو جاتے ہیں۔ محبوب، جس کے لیے شاعر نے ساری زندگی تڑپ میں گزاری، اس کے مرنے کی خبر سن کر بھی نہ آیا۔ ایسا نہیں کہ اس کو اطلاع نہ ملی ہو، بلکہ اس نے آنا ہی گوارا نہ کیا۔ جنازہ دیر تک بے یار و مددگار پڑا رہا، لیکن محبوب کی بے نیازی جوں کی توں قائم رہی۔
آخرکار لوگ شاعر کی لاش کو لاوارث سمجھ کر دفن کر دیتے ہیں۔ وہ آنکھیں جو ساری زندگی محبوب کے دیدار کو ترستی رہیں، وہ آخری لمحے تک اس کی ایک جھلک کی منتظر رہیں، آخرکار ہمیشہ کے لیے مٹی تلے دفن ہو جاتی ہیں — بینا مگر محروم، زندہ مگر خاموش گواہی دیتی ہوئی کہ ایک سچے عاشق کا مقدر فقط تنہائی اور بے قدری ہوتا ہے۔
شعر 4:
پچھے یاد کریسیں کیا فائدہ
جڈاں ماس مکوڑے کھا ویسن
تشریح:
شاکر شجاع آبادی اس شعر میں موت کے بعد کی ایک تلخ حقیقت اور بے وفا محبوب کی بے حسی کو بیان کرتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا، میری لاش مٹی کے حوالے ہو جائے گی، اور میرا جسم کیڑوں مکوڑوں کی خوراک بن چکا ہوگا، اُس وقت اگر تم مجھے یاد کرو گے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
شاعر کو اُمید تھی کہ شاید مرنے کے بعد محبوب کو ہوش آئے، شاید پچھتاوا ہو، شاید اس کی محبت کی قدر کا احساس جاگے۔ مگر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ احساس بہت دیر سے آئے گا، جب اُس کا جسم گل سڑ چکا ہوگا، جب اُس کی آنکھیں بند ہو چکی ہوں گی، اور جب محبوب کے دیدار کی خواہش قبر کی مٹی میں دفن ہو چکی ہو گی۔
یہ مصرعہ ایک گہری تنقید ہے اُن لوگوں پر جو کسی کی زندگی میں اُس کی محبت، چاہت یا قربت کی قدر نہیں کرتے، مگر اُس کے مرنے کے بعد ندامت اور افسوس کے آنسو بہاتے ہیں۔ شاکر شجاع آبادی یہاں ہمیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ محبت کا اظہار زندگی میں کریں، مرنے کے بعد یادیں صرف دل دکھاتی ہیں، زندہ کو وقت پر اہمیت دینا ہی اصل انسانیت ہے۔
نظم کے اہم موضوعات
1. موت اور سماجی رویے
شاکر شجاع آبادی اس نظم میں موت کے بعد انسان کے ساتھ معاشرے کے سلوک کو نہایت تلخ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ شاعر دکھ کے ساتھ بتاتے ہیں کہ جب کوئی انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تو لوگ اس کے لیے افسوس کے دو لفظ کہہ دیتے ہیں، اس کی تعریف کرتے ہیں، مگر وہ محبت، وہ خلوص جو زندگی میں دیا جانا چاہیے تھا، وہ کبھی نہیں دیتے۔ شاعر کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو زندگی میں کسی کو عزت، محبت یا اہمیت نہیں دیتے، مگر مرنے کے بعد رسمی اظہارِ افسوس کرتے ہیں، جو صرف ایک منافقانہ سماجی روایت بن چکا ہے۔
2. تنہائی اور بے قدری
شاعر لاوارث لاش کی مثال دے کر انسان کی تنہائی اور سماج کی بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ شاعر کی لاش محبوب کے انتظار میں پڑی رہتی ہے، لیکن کوئی نہیں آتا۔ جس انسان نے ساری زندگی محبت کی امید رکھی، اُسے مرتے وقت بھی تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں شاعر یہ پیغام دیتا ہے کہ معاشرہ اس قدر خود غرض اور بے حس ہو چکا ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد کی بات کرتا ہے، سچے جذبوں اور تعلقات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ یہ موضوع موجودہ دور کے انسان کی روحانی و جذباتی تنہائی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے3. فانی انسانی وجود
ادبی خصوصیات
1. سادہ زبان، گہرا اثر
2. طنز کی چبھن اور کرب کی تلخی
اس نظم میں شاکر کا مخصوص طنزیہ لہجہ نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ شاعر نے اپنے محبوب اور سماج کے دوغلے رویوں پر نہایت گہرا طنز کیا ہے۔ وہ اس طنز کے ذریعے سماج کی منافقت، جذباتی بے حسی اور مفاد پرستی کو بے نقاب کرتے ہیں۔ یہ طنز کہیں لفظوں میں چھپا ہوتا ہے اور کہیں بہت کڑوا اور تلخ بن کر قاری کے سامنے آتا ہے۔ یہی انداز شاکر شجاع آبادی کی پہچان بھی ہے، جو ان کی شاعری کو عام نظموں سے ممتاز بناتا ہے۔
3. موت کا فلسفہ اور حقیقت پسندی
شاکر شجاع آبادی نے موت کو صرف ایک رومانی یا جذباتی سانحہ کے طور پر نہیں پیش کیا، بلکہ اسے ایک فلسفیانہ حقیقت کے طور پر بیان کیا ہے۔ شاعر ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ موت ایک اٹل اور تلخ سچائی ہے، جس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ نظم میں وہ اس حقیقت کی نہ صرف یاد دہانی کرواتے ہیں، بلکہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ مرنے کے بعد سب کچھ ختم ہو جاتا ہے — رشتے، وعدے، احساسات، اور یہاں تک کہ محبوب کی امید بھی۔ مرنے کے بعد اگر کوئی آئے یا نہ آئے، رونا یا یاد کرے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، کیونکہ جسم تو اب کیڑوں مکوڑوں کا رزق بن چکا ہوتا ہے۔
شاکر شجاع آبادی کی دیگر مشہور نظمیں
یہ نظم جدید اردو شاعری میں "حیات بعد الممات" کے موضوع پر ایک منفرد تخلیق ہے۔ شاکر نے سماجی نفاق اور انسانی فنا کو انتہائی مؤثر طریقے سے پیش کیا ہے۔
FAQs
1. شاکر شجاع آبادی کون تھے؟
شاکر شجاع آبادی پاکستان کے معروف شاعر تھے جن کی شاعری میں درد، محرومی اور سماجی مسائل کی عکاسی ملتی ہے۔
2. یہ نظم کس صنف سے تعلق رکھتی ہے؟
یہ نظم "حزن و ملال"
کی صنف میں آتی ہے، جس
میں طنز اور المیہ دونوں پہلو موجود ہیں۔
3. کیا شاکر شجاع آبادی کی شاعری جدید دور سے متعلق ہے؟
جی ہاں، ان کی شاعری آج بھی اسی طرح متعلق ہے، کیونکہ سماجی رویے کم و بیش یکساں ہیں۔
اختتامیہ
شاکر شجاع آبادی کی نظم "میڈے بعد مرنڑ دے چن شاکر" اردو ادب کا ایک شاہکار ہے جو انسان کی بے ثباتی اور سماج کی
منافقت کو بے نقاب کرتی ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر قاری گہرے سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ اگر
آپ نے ابھی تک شاکر کی شاعری نہیں پڑھی، تو یہ نظم ان کے فن کو سمجھنے کا بہترین
آغاز ہے۔
0 Comments